Translate

Monday, 23 July 2018

Saturday, 23 June 2018

Monday, 30 April 2018

Thursday, 1 March 2018

مُلکِ شام کے متعلق  نبی پاک صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَسَلَّم كی پیشن گوئیاں👇👇👇

مُلکِ شام کے متعلق  نبی پاک صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَسَلَّم كی پیشن گوئیاں👇👇👇

اللّٰه کے رَسُول صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے قیامت کے نشانات بتلاتے ہوئے فرمایا کہ :
" اُونٹوں اور بَکریوں کے چَروَاہے جو بَرہَنَہ بَدَن اور ننگے پاؤں ہونگے وہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے لمبی لمبی عمارتیں بنوائیں گے اور فخر کریں گے ... "
(صحیح مسلم 8)

ریاض شہر میں عمارتوں کا یہ مقابلہ آج اپنے عُروج پر پہنچ گیا، دبئی میں ’’برج خلیفہ‘‘ کی عمارت دنیا کی سب سے اُونچی عمارت بن گئی تو ساتھ ہی شہزادہ ولید بن طلال نے جَدَّہ میں اس سے بھی بڑی عمارت بنانے کا اعلان کر دیا ہے جو دھڑا دھڑ بنتی چلی جا رہی ہے، عرب کی عمارتیں سارے جہان سے اونچی ہو چکی ہیں ...!

عرض کرنے کا مقصد صرف یہ کہ میرے پیارے رسول حضرت مُحمَّد صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے جو فرمایا وہ پُورا ہو چکا ہے اور پیشگوئی پُوری ہو کر اپنے نُکتۂ کمال کو پہنچ چکی ہے ...!

عرب کا سب سے زیادہ تیل خریداری کرنے والے امریکہ نے صَدَّام کو ختم کر کے تیل کی دولت سے سَیراب مُلک عِرَاق کے کنوؤں پر قبضہ جما لیا ہے اور لاکھوں بیرل مُفت وصول کر رہا ہے تو پھر تیل کی گِرتی مانگ نے تیل کی قیمتوں کو نچلی سطح پر پہنچا دیا جس سے عرب ممالک کا سُنہرا دَور خاتمے کے قریب ہے ...!

■ سوال پیدا ہوتا ہے اس زوال کے بعد کیا ہے ...؟

اللّٰه کے رَسُول صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم کی ایک اور حدیث ہے کہ :
" قیامت سے پہلے سَرزَمینِ عرب دوبارہ سَرسَبز ہو جائیگی"
(صحیح مسلم)

سعودی عرب اور امارات میں بارشیں شروع ہو چکی ہیں، مَکَّہ اور جَدَّہ میں سَیلاب آ چکے ہیں۔

عرب سرزمین جسے پہلے ہی جدید ٹیکنالوجی کو کام میں لا کر سرسبز بنانے کی کوشش کی گئی ہے وہ قدرتی موسم کی وجہ سے بھی سرسبز بننے جا رہی ہے۔ سعودی عرب گندم میں پہلے ہی خودکفیل ہو چکا ہے، اب وہاں خشک پہاڑوں پر بارشوں کی وجہ سے سبزہ اُگنا شروع ہو چکا ہے، پہاڑ سرسبز ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بارشوں کی وجہ سے آخرکار حکومت کو ڈیم بنانا ہوں گے جس سے پانی کی نہریں نکلیں گی، ہریالی ہو گی، سبزہ مزید ہو گا، فصلیں لہلہائیں گی، یُوں یہ پیشگوئی بھی اپنے تکمیلی مَرَاحِل سے گزرنے جا رہی ہے اور جو میرے حضور صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے فرمایا اسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے جا رہے ہیں ...!

اگر احادیث پر غور کریں تو مَشرقِ وُسطیٰ کے زوال کا آغاز مُلکِ شام سے شروع ہوا لیکن شاید عرب حُکمران یا تو یہود و نصاریٰ کی چال سمجھ نہ سکے یا بے رخی اختیار کی لیکن وجہ جو بھی ہو یا نہ ہو، سرکار صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم کی بتائی ہوئی علامات کو تو ظاہر ہونا ہی تھا حدیث کے مطابق ...!

چُنانچہ حدیث پاک میں ارشاد ہے
ﺭﺳﻮﻝ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
" ﺟﺐ ﺍﮨﻞِ ﺷﺎﻡ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﻭ ﺑﺮﺑﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ "
(ﺳﻨﻦ ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ 2192: ﺑﺎﺏ ﻣﺎﺟﺎﺀ ﻓﯽ ﺍﻟﺸﺎﻡ، ﺣﺪﯾﺚ ﺻﺤﯿﺢ)

میرے محترم و مکرم قارئین کرام یاد ﺭﮐﮭﯿﮟ ...!
ﺍَﺣﺎﺩﯾﺚِ ﻣُﺒَﺎﺭﮐﮧ ﮐﯽ ﺭُﻭ ﺳﮯ ﺷﺎﻡ ﻭ ﺍﮨﻞِ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﺍُﻣَّﺖِ ﻣُﺴﻠﻤﮧ ﮐﺎ ﻣُﺴﺘﻘﺒﻞ ﻭَﺍﺑﺴﺘﮧ ﮨﮯ، ﺍﮔﺮ مُلکِ شام ایسے ہی ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﻮتے رہا ﺗﻮ
ﭘُﻮﺭﯼ ﺍُﻣَّﺖِ ﻣُﺴﻠﻤﮧ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺧﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ، ویسے تو 90 فیصد برباد ہو چکا .........!

اب جبکہ پانچ سالہ خُونریزی میں 8 لاکھ بےگناه بَچّے، بُوڑھے، عَورتیں شہید اور لاتعداد دُوسرے مُلک کی سرحدوں پر زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے شہید ہو رہے ہیں اور اتنے ہی تعداد میں زخمی یا معذور ہو چکے، لہٰذا شام مُکمَّل تباہی کے بعد اب نزع کی حالت میں ہے ...!

اس حدیث کے حساب سے عرب ممالک کے سُنہرے دَور کے خاتمہ کی اہم وجہ مُلکِ شام کے مَوجُودَہ حالات ہيں، گویا نبی صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم کی ایک اور پیشگوئی کی عَلامَت ظاہر ہو رہی ہے یا ہو چکی ........!

یاد رکھیں ...!
کہ مُلکِ شام کے مُتعلّق اِسرائیل، رُوس، ایران و امریکہ جو بھی جھوٹے بہانے بنائے، لیکن ان سب کا اَصل ہَدَف جَزیرَة ُالعَرَب ہے کیونکہ کُفَّار کا عقیدہ ہے کہ دَجَّال مَسِیحَا ہے اس وجہ سے یہ لوگ دَجَّال کے اِنتظامات مُکمَّل کر رہے ہیں جس کے لیے عرب ممالک میں عَدمِ اِستحکام پیدا کرنا ہے کیونکہ مُلکِ شام پر یہود و نصاریٰ قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ ہو کر رہیگا حضرت مہدی عَلیهِ السَّلام کے ظہور سے قبل .....!

چُنانچہ کتابِ فِتَن میں ہے کہ :
" آخری زمانے میں جب مُسلمان ہر طرف سے مَغلوب ہوجائیں گے، مُسلسل جَنگیں ہوں گی، شام میں بھی عیسائیوں کی حکومت قائم ہو جائے گی، عُلماء کرام سے سُنا کہ سَعُودی، مِصر، ترکی بهى باقى نہ رہیگا ہر جگہ کُفَّار کے مظالم بڑھ جائیں گے، اُمَّت آپسی خَانہ جَنگی کا شِکار رہےگی. عرب (خلیجی ممالک سعودی عرب وغیرہ) میں بھی مسلمانوں کی باقاعدہ پُرشوکت حکومت نہیں رہےگی، خَیبَر (سعودی عرب کا چھوٹا شہر مَدینةُ المُنَوَّره سے 170 کم فاصلے پر ہے) کے قریب تک یہود و نصاریٰ پہنچ جائیں گے، اور اس جگہ تک ان کی حکومت قائم ہوجائے گی، بچے کھچے مسلمان مَدِینة ُالمُنَوَّرَه پہنچ جائیں گے، اس وقت حضرت امام مہدی عَليهِ السَّلام مدینہ منورہ میں ہوں گے "

دُوسری طرف دریائے طبریہ بھی تیزی سے خُشک ہو رہا ہے جو کہ مہدی عَلیہِ السَّلام کے ظہور سے قبل خُشک ہو گا ...!

اسلئے جب مَشرقِ وُسطیٰ کے حالات کو خُصُوصاً مُسَلمانوں اور ساری دُنیا کے حالات کو دیکھتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ دُنیا ہولناکیوں کی جانب بڑھ رہی ہے، فرانس میں حَملوں کے بعد فرانس اور پوپ بھی عالمی جنگ کی بات کر چکے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے اس عالمی جنگ کا مرکز کون سا خطہ ہو گا ...؟
وَاضِح نظر آ رہا ہے، مَشرقِ وُسطیٰ ہی مُتَوَقّع ہے ....!

یہاں بھی ہند و پاک کی رَنجِشیں اور کشمکش کے بڑھتے حالات سے بھی لگتا ہے کہ غَزوۂ ہند کی طرف رُخ کر رہے ہیں کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِىَ اللّٰهُ تَعَالىٰ عَنه سے روایت ہے کہ رَسُولُ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا :
" میری قوم کا ایک لشکر وَقتِ آخِر کے نزدیک ہند پر چَڑھائی کرے گا اور اللّٰه اس لشکر کو فتح نصیب کرے گا، یہاں تک کہ وہ ہند کے حُکمرانوں کو بیڑیوں میں جَکڑ کر لائیں گے۔ اللّٰه اس لشکر کے تمام گناہ معاف کر دے گا۔ پھر وہ لشکر وَاپس رُخ کرے گا اور شام میں موجود عیسیٰ ابنِ مَریم عَليهِ السَّلام کے ساتھ جا کر مِل جائے گا "

حضرت ابوہریرہ رَضِىَ اللّٰه تعالىٰ عَنه نے فرمایا :
" اگر میں اُس وقت تک زندہ رہا تو میں اپنا سب کچھ بیچ کر بھی اُس لشکر کا حِصَّہ بَنُوں گا، اور پھر جب اللّٰه ہمیں فتح نصیب کرے گا تو میں ابوہریرہ (جہنم کی آگ سے) آزاد کہلاؤں گا۔ پھر جب میں شام پہنچوں گا تو عیسیٰ ابنِ مَریم عَليهِ السَّلام کو تلاش کر کے انہیں بتاؤں گا کہ میں مُحَمَّد صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم كا ساتھی رہا ہوں "

رسول پاک صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے تَبَسُّم فرمایا اور کہا :
"بہت مشکل، بہت مشکل"
(کتاب الفتن۔ صفحہ ۴۰۹)

(واللہ تعالٰی اعلم)

آنے والے اَدوَار بڑے پُرفِتن نظر آتے ہیں اور اس کے مُتعلّق بھی سَرکار صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے فرمایا تھا کہ میری اُمَّت پر ایک دَور ایسے آئیگا جس میں فِتنے ایسے تیزی سے آئیں گے جیسے تسبیح ٹوٹ جانے سے تسبیح کے دانے تیزی سے زمین کی طرف آتے ہیں، لہٰذا اپنی نَسلوں کی ابھی سے تربیت اور ایمان کی فِکر فرمایئے، موبائل كے بےجا استعمال سے، دیر رات تک جاگنے، فیشن اور یہودی انداز اپنانے سے، نمازوں کو تَرک کرنے سے روكئے ...
ورنہ آزمائش کا مقابلہ دُشوار ہو گا .....!

دوستوں چلتے، چلتے ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کوئی ایسی نایاب ویڈیو، قول، واقعہ، کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگے، تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو ....!
جزاک اللہ خیرا کثیرا ..

Tuesday, 27 February 2018

عوت اور بھیڑیا

بنی اسرائیل کی ایک عورت اپنے بچے کو لے کر جنگل میں سے گزر رہی تھی کہ اچانک بھیڑیا آیا اور اس نے عورت پہ حملہ کیا جب بھیڑیئے نے حملہ کیا تو وہ کمزور دل عورت گھبرا گئ جس کی وجہ سے اسکا بیٹا اسکے ہاتھ سے نیچے گر گیا بھڑیئے نے بچے کو اٹھایا اور وہاں سے بھاگ گیا ۔جب ماں نے دیکھا کہ بھیڑیا میرے بیٹے کو منہ میں ڈالکر جارہا ہے تو ماں کی ممتا نے جوش مارا تو اسکے دل سے ایک آہ نکلیجیسے ہی اسکی آہ نکلی تو اس نے دیکھا کہ جوان مرد
درخت کے پیچھے سے بھیڑیے کے سامنے آیا ، جب بھڑیئے نے سامنے اچانک ایک مرد کو دیکھا تو وہ گھبرا گیا اور بچے کو وہی چھوڑ کر بھاگ گیا نوجوان نے بچے کواٹھایا اور ماں کے حوالے کردیا اس ماں نے اس سے پوچھاتم کون ہو جس نے میرے بچے کی جان بچائی آدمی نے کہامیں اللہ پاک کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں مجھے اللہ پاک نے آپکی مدد کرنے بھیجا ھے جب ایک بار آپ کھانا کھا رہی تھی عین اسی وقت ایک سائل نے آپکے دروازے پہ روٹی کا ٹکرا مانگا آپکے گھر میں اس وقت وہی روٹی موجود تھی جو آپ خود کھانے والی تھی آپ نے کہا اللہ کے نام پہ سوال کرنے والے کو خالی ہاتھ کیسے جانے دوں تم نےخود کو بھوکا رکھ کر اپنے لقمے اسکو دیئے آپ اللہ پاک نے بھیڑیے کے منہ کے لقمے نکال کر آپ کو دیئے کہ احسان کا بدلہ بس احسان ہے ــآج جب ہمارے معاشرے میں طرح طرح کے ڈرنکس بن رہے ہیں طرح طرح کے کھانے تو یہ ممکن ہے کہ کسی غریب کے گھر فاقے ہوں ـ ہمارا ہمسایہ بھوکا ہو ــ آئیں اپنے منہ کے نوالے اگر پورے نہیں تو آدھے ان کے نام کردے کیا پتہ حالات کا بھیڑیا کل ہم کو اس عورت گھیر لے اور بچانے بھی کوئی نہ آے ــ کھانوں کی سلفیاں لیکر فیس بک ڈالنا کوئی نیکی نہیں

خاوند کا تجسس

شادی کے دن نئی نویلی دلہن نے ایک اٹیچی کیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے شوہر سے وعدہ لیا کہ وہ اس اٹیچی کیس کو کبھی نہیں کھولے گا۔ شوہر نے وعدہ کر لیا۔شادی کے پچاسویں سال بیوی جب بسترمرگ پر پڑ گئی تو خاوند نے اسے اٹیچی کیس یاد دلایا بیوی بولی :اب یہ وقت ہے اس اٹیچی کیس کے راز کو افشا کرنے کا۔ اب آپ اس اٹیچی کیس کو کھول لیں۔خاوند نے اٹیچی کیس کھولا تو اس میں سے دو گڑیاں اور ایک لاکھ روپے نکلےخاوند کے پوچھنے پر بیوی بولی “میری ماں نے مجھے کامیاب شادی کا راز بتاتے ہوئے ،

نصیحت کی تھی کہ غصہ پی جانا بہت ہی اچھا ہے۔ اسکے ماں نے مجھے طریقہ بتایا تھا کہ جب بھی اپنے خاوند کی کسی غلط بات پر غصہ آئے تو تم بجائے خاوندپر غصہ آئے تو تم بجائے خاوند پر غصہ نکالنے کی بجائے ایک گڑیا سی لیا کرنا”۔تو مجھے جب بھی آپ کی کسی غلط بات پر غصہ آیا میں نے گڑیا سی لیخاوند دو گڑیاں دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ اس نے اپنی بیوی کو کتنا خوش رکھا ہوا ہے کیونکہ بیوی نے پچاس سال کی کامیاب ازدواجی زندگی میں صرف دو گڑیاں ہی بنائی تھیں۔خاوند نے تجسس سے اٹیچی میں موجود ایک لاکھ روپوں کے بارے میں پوچھا تو بیوی بولی“یہ ایک لاکھ روپے میں نے گڑیاں بیچ بیچ کر اکٹھے کیے ہیں.

ممی سازی( احرام مصر کی )

#ممی_سازی​ ...!

ممی سازی مصریوں کا نادرِ روزگار فن تھا۔ اس فن کو انہوں نے تجارتی راز کی طرح اپنے سینے میں محفوظ رکھا۔ البتہ جب مصر پر عیسائیوں کا غلبہ ہوا تو مصری تہذیب کے ساتھ ممی سازی کا ہنر بھی موت کے ملبوں تلے دب کر ختم ہو گیا ...

قابل قدر قارئین کرام یونان کے مشہور مؤرخ ہیروڈوٹس نے 5ویں صدی قبل مسیح میں مصر کا سفر کیا تھا۔ وہ ممی سازی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :
" ممیاں عام طور پر تین قسم کی ہوتی ہیں۔ بہت قیمتی، اوسط قیمت کی اور معمولی درجے کی۔ اعلٰی درجے کی ممیوں کی تیاری کا طریقہ یہ تھا ...

ممی ساز سب سے پہلے ایک آنکڑے سے مُردے کا مغز نتھنوں کے راستے نکال لیتے ہیں۔ مغز کا جو حصہ اندر رہ جاتا ہے اس کو دوائیں اندر ڈال کر خارج کرتے ہیں پھر ایک تیز پتھر سے پیٹ کے ایک طرف گہرا شگاف ڈالتے ہیں اور انتڑیاں نکالتے ہیں۔ اس کے بعد لاش کو اندر باہر سے کھجور کی شراب سے خوب دھوتے ہیں اور لوبان کی دھونی دیتے ہیں تب لوبان، تیزپات اور دوسرے خوشبودار مسالوں کا سفوف لاش کے اندر بھر دیتے ہیں اور شگاف اور سوراخوں کو سی دیتے ہیں۔ اس کے بعد لاش 70 دن تک لظرون (شوار) کے پانی میں ڈوبی رہتی ہے۔ 70 دن کے بعد لاش کو غسل دیا جاتا ہے اور عمدہ لٹھے کی پٹیاں گوند لگا کر لاش کے گرد لپیٹ دی جاتی ہیں تب لاش کے ورثا لاش کو لکڑی کے ایک بکس میں جو انسان کی شکل کا ہوتا ہے رکھ دیتے ہیں اور بکس کا ڈھکنا بند کر کے مقبرے میں دفن کر دیتے ہیں ...

جن لوگوں کی استطاعت اوسط درجے کی ہوتی ہے ان کی لاش میں سے شگاف دے کر غلاظت نہیں نکالی جاتی بلکہ مقعد میں چندن کے تیل کی پچکاری دی جاتی ہے اور مقعد کا سوراخ بند کر دیا جاتا ہے تا کہ تیل باہر نہ نکلنے پائے۔ تب لاش کو 70 دن لظرون کے پانی میں ڈبو دیا جاتا ہے۔ آخری دن مقعد کو کھول دیا جاتا ہے تا کہ تیل خارج ہو جائے۔ یہ دوا اتنی کارگر ہوتی ہے کہ ساری غلاظت اور انتڑیاں رقیق مادے کی شکل میں باہر آ جاتی ہیں اور لظرون گوشت کو گھلا دیتا ہے چنانچہ کھال اور ہڈیوں کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہتا۔ اس کے بعد لاش بِلا پٹی لپیٹے اور مسالہ بھرے ورثا کے حوالے کر دی جاتی ہے ...

جو لوگ بلکل ہی کم استطاعت ہوتے ہیں ان کی لاش کو مسہل دے کر اور 70 دن تک لظرون کے پانی میں ڈبو کر واپس کر دیا جاتا ہے ... "

(واللہ تعالٰی اعلم)

Allama Khizar Hayat Bakharvi Bayan Ijima Qila Dedar Singh 2018

Thursday, 15 February 2018

وہ پیدا ہوا تو اس کے کان نہیں تھے

وہ پیدا ہوا تو اس کے کان نہیں تھے

ایک عورت کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، وہ اور اس کا خاوند بہت خوش تھے۔ انہوں نے اپنے بچے کو پہلی بار دیکھا، وہ بہت خوبصورت تھا لیکن اس کے کان نہیں تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر سے پوچھا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کے کان اندر سے بالکل ٹھیک تھے اور وہ کسی بھی طرح سے معزور نہیں تھا لیکن اس کے باہر نظر آنے والے کان نہیں تھے اور اس کے لیے ڈاکٹر اس وقت کچھ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ ایک بہت چھوٹا سا بچہ تھا۔ اس کی ماں اسی وقت سمجھ گئی کہ اس بچے کے لیے لوگوں کا سامنا کرنا.
اور ایک نارمل زندگی گزارنا بالکل نا ممکن تھا۔ جب وہ بچہ سکول جانا شروع ہوا تو وہ پڑھائی میں باقی سب سے بہتر تھا لیکن حسد کی وجہ سے باقی لڑکے اسباقی لڑکے اس کے کان کا مزاق اڑاتے تھے۔وہ جب بھی سکول سے واپس آتا اس کاچہرہ لٹکا ہوا ہوتا تھا۔ اس کی ماں بہت پریشان رہتی تھی۔ وہ لڑکا آہستہ آہستہ پڑھائی میں بھی کمزور ہوتا جا رہا تھا کیونکہ وہ باقیوں کی باتوں کو دل پر لیتا تھا۔ پھر وہ کالج کا طالب علم ہو گیا اور پھر یونیورسٹی جانے لگا لیکن وہ جدھر بھی جاتا لوگ اس کا مزاق اڑاتے تھے۔ ایک دن اس کا باپ جا کر ڈاکٹر سے ملا اور بتایا کہ ان کا بیٹا احساس کمتری کا شکار ہو گیا ہے، کچھ ایسا نہیں ہے کہ اس کے کان ٹھیک کیے جا سکتے ہوں؟ ڈاکٹر نے بولا کہ ہو تو سکتا ہے لیکن اس کے لیے کوئی ڈونر چاہیے ہو گا۔ لڑکے کا باپ دو سال ادھر ادھر مارکٹنگ کرتا رہا اور لوگوں سے پوچھتا رہا آخر ایک دن وہ اپنے بیٹے کے پاس گیا اور اس کو بولا کہ چلو ہسپتال چلیں آپ کے لیے ڈونر مل گیا ہے، اس کا بیٹا بہت خوش ہوا کہ پوچھا کہ کون اتنا عظیم انسان ہے؟ باپ نے بولا کہ اس نے مجھے بتانے سے منع کیا ہے، بس سمجھو کہ یہ ایک راز ہے۔آہستہ آہستہ اس کی پڑھائی پہلے کی طرح بہت بہتر ہو گئی اور وہ ٹاپ کرنے لگ گیا۔ اس نےاس کا آپریشن کامیاب رہا اور وہ دیکھنے میں بالکل نارمل بلکہ بہت وجیہہ نظر آنے لگ گیا۔ بہت اچھے زندگی کا آغاز کر لیا۔ پھر اس کی شادی ہو گئی
اور اس کے بچے بھی ہو گئے، کبھی کبھی وہ اپنے ماں باپ سے پوچھتا کہ وہ کون ہے جو اس کا محسن ہے جس نے اسے نارمل زندگی گزارنے کے قابل بنایا ہے۔ وہ ٹال دیتے کہ جب وقت آئے گا تو بتا دیں گے، ابھی اس کو راز ہی رہنے دو۔ جس دن اس لڑکے کا ماں کی وفات ہوئی وہ اس کے لیے پہلے ہی بہت بھاری دن تھا، اس کے باپ نے تابوت کے پاس اسے بلایا اور اس کی ماں کے بال ایک طرف کر کے اس کو دکھایا تو اس کی ماں کے کان نہیں تھے۔
اس نے اپنے بیٹے کو بتا دیا تھا کہ اس کی سب سے بڑی محسن کونسی عظیم ہستی تھی۔ وہ لڑکا بہت رویا اور اس نے اپنے باپ سے پوچھا کہ کبھی کسی نے ماں کو تو عجیب نظروں سے نہیں دیکھا تھا کہ ان کے کان نہیں تھے، باپ نے بولا کہ جن کا دل اتنا صاف اور خوبصورت ہو ان کی شکل اور ظاہری حلیے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، لڑکا اب سمجھا تھا کہ اس کی ماں اتنے عرصے سے بال ہمیشہ کھلے کیوں چھوڑتی تھی۔

ﻭﮦ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ

ﻭﮦ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ

ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺳﺒﻖ ﭘﮍﮬﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺑﺮﻗﻌﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﺁﺋﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺐ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﺮﯼ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﺣﻤتہ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﯼ۔ﻃﻠﺒﺎﺀﺑﮍﮮ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮧ ﺑﮭﺌﯽ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻧﯿﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﯿﺐ ﺗﻮ ﻻﺋﯽ ﺳﺎتھ ﭼﮭﺮﯼ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ۔

ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻋﻈﻢ ﺭﺣﻤتہ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺳﯿﺐ ﮐﺎﭨﺎﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺎ ﺣﺼّﮧ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﭼﮭﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺐ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔ﺍﺏ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﺣﻤتہ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﺣﺪﯾﺜﯿﮟ ﺳﻨﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺪﯾﮧ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﺧﻼ ﻑ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺟﻮ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺪﯾﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﮮ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﮮ ﺩﯾﺘﮯ۔ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎﻭﮦ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﯼ ﺗﻮ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ﺍﺏ ﯾﮧ ﺣﯿﺮ ﺍﻥ ﮐﮧ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮐﻮﻧﺴﺎ ﭘﻮچھ ﮐﺮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ﻧﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﻧﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ۔ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺳﯿﺐ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺌﯽ ﺭﻧﮓ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﻣﭩﯿﺎﻟﮧ ﮨﮯ،ﮐﮩﯿﮟ ﻣﮩﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﮨﮯ، ﮐﮩﯿﮟ ﺳﺒﺰ ﮨﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﺮﺥ ﮨﮯ۔ﻋﻮﺭﺕ ﺟﺐ ﻧﺎﭘﺎﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﻥ ﮐﺌﯽ ﺭﻧﮓ ﺑﺪﻟﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔ﻭﮦ ﯾﮧ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﻮﻧﺴﺎ ﺭﻧﮓ ﻧﺎﭘﺎﮐﯽ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﻧﺴﺎ ﭘﺎﮐﯽ ﮐﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺐ ﻧﻤﺎﺯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺳﯿﺐ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺭﻧﮓ ﮨﻮ ﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﺎﭨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺳﻔﯿﺪ ﺭﻧﮓ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﻧﮓ ﻧﮩﯿﮟ۔ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺳﻔﯿﺪﺣﺼّﮧ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﮮﺩﯾﺎﮐﮧ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺳﻔﯿﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺭﻧﮓ ﻧﺎﭘﺎﮐﯽ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ۔ﻭﮦ ﺧﯿﺮﺍﻟﻘﺮﻭﻥ ﮐﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮐﺮﻭ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﮐﯿﺴﺎ ﺩﻣﺎﻍ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﭘﻮﭼﮭﺎﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎ ﻡ ﺍﻋﻈﻢ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺲ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ ۔ ‏