Translate

Tuesday, 27 February 2018

ممی سازی( احرام مصر کی )

#ممی_سازی​ ...!

ممی سازی مصریوں کا نادرِ روزگار فن تھا۔ اس فن کو انہوں نے تجارتی راز کی طرح اپنے سینے میں محفوظ رکھا۔ البتہ جب مصر پر عیسائیوں کا غلبہ ہوا تو مصری تہذیب کے ساتھ ممی سازی کا ہنر بھی موت کے ملبوں تلے دب کر ختم ہو گیا ...

قابل قدر قارئین کرام یونان کے مشہور مؤرخ ہیروڈوٹس نے 5ویں صدی قبل مسیح میں مصر کا سفر کیا تھا۔ وہ ممی سازی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :
" ممیاں عام طور پر تین قسم کی ہوتی ہیں۔ بہت قیمتی، اوسط قیمت کی اور معمولی درجے کی۔ اعلٰی درجے کی ممیوں کی تیاری کا طریقہ یہ تھا ...

ممی ساز سب سے پہلے ایک آنکڑے سے مُردے کا مغز نتھنوں کے راستے نکال لیتے ہیں۔ مغز کا جو حصہ اندر رہ جاتا ہے اس کو دوائیں اندر ڈال کر خارج کرتے ہیں پھر ایک تیز پتھر سے پیٹ کے ایک طرف گہرا شگاف ڈالتے ہیں اور انتڑیاں نکالتے ہیں۔ اس کے بعد لاش کو اندر باہر سے کھجور کی شراب سے خوب دھوتے ہیں اور لوبان کی دھونی دیتے ہیں تب لوبان، تیزپات اور دوسرے خوشبودار مسالوں کا سفوف لاش کے اندر بھر دیتے ہیں اور شگاف اور سوراخوں کو سی دیتے ہیں۔ اس کے بعد لاش 70 دن تک لظرون (شوار) کے پانی میں ڈوبی رہتی ہے۔ 70 دن کے بعد لاش کو غسل دیا جاتا ہے اور عمدہ لٹھے کی پٹیاں گوند لگا کر لاش کے گرد لپیٹ دی جاتی ہیں تب لاش کے ورثا لاش کو لکڑی کے ایک بکس میں جو انسان کی شکل کا ہوتا ہے رکھ دیتے ہیں اور بکس کا ڈھکنا بند کر کے مقبرے میں دفن کر دیتے ہیں ...

جن لوگوں کی استطاعت اوسط درجے کی ہوتی ہے ان کی لاش میں سے شگاف دے کر غلاظت نہیں نکالی جاتی بلکہ مقعد میں چندن کے تیل کی پچکاری دی جاتی ہے اور مقعد کا سوراخ بند کر دیا جاتا ہے تا کہ تیل باہر نہ نکلنے پائے۔ تب لاش کو 70 دن لظرون کے پانی میں ڈبو دیا جاتا ہے۔ آخری دن مقعد کو کھول دیا جاتا ہے تا کہ تیل خارج ہو جائے۔ یہ دوا اتنی کارگر ہوتی ہے کہ ساری غلاظت اور انتڑیاں رقیق مادے کی شکل میں باہر آ جاتی ہیں اور لظرون گوشت کو گھلا دیتا ہے چنانچہ کھال اور ہڈیوں کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہتا۔ اس کے بعد لاش بِلا پٹی لپیٹے اور مسالہ بھرے ورثا کے حوالے کر دی جاتی ہے ...

جو لوگ بلکل ہی کم استطاعت ہوتے ہیں ان کی لاش کو مسہل دے کر اور 70 دن تک لظرون کے پانی میں ڈبو کر واپس کر دیا جاتا ہے ... "

(واللہ تعالٰی اعلم)

No comments:

Post a Comment