اس تلوار کا حق کون ادا کرے گا ؟ ٭ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کی شجاعت٭-
حضرتِ ابو دجانہ رضی اللہ عنہ بڑے بہادر،دلیر اور میدانِ جنگ میں اگلی صفوں میں لڑنے والے مجاہد تھے۔ ان کا نام سماک اوس بن خرشہ ہے۔ غزوہ احد میں انکے بہادری کے کارنامے اسلامی تاریخ کا حصّہ ہیں۔ انہوں نے بدر و احد کے علاوہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تمام جنگوں میں شرکت فرمائی۔ احدکے دن رسول اللہ ﷺنے فرمایا:"اس تلوار کا حق کون ادا کرئے گا"لوگ اس کے لیے آگے بڑھے لیکن آپ نے انہیں تلوار نہیں دی۔ اتنے میں ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور پوچھا:" اس کا حق کیا ہے؟"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"حق یہ ہے کہ اس سے دشمن کو اتنا مارو کہ یہ ٹیڑھی ہوجائےاور دشمن دم دبا کر بھاگ جائےچنانچہ ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر تلوار لی اور لال پٹی سر پر باندھ کر اکڑتے ہوئےدشمن کی صف میں جا گھسے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کی چال دیکھ کر فرمایا:"یہ ایسی چال ہے جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے، مگر اس مقام پر نہیں"۔اللہ کے رسول ﷺ کی وفات کے بعد کئی قبائل اسلام سے مرتد ہوگئے اور مسلمہ کذاب ان کا لیڈر بن گیا، چنانچہ ان مرتدین نے زکٰوۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف اعلانَ جہاد کیا۔مرتدین کی سرکوبی کے لیے جو لشکر روانہ ہوا، اس میں ابودجانہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ یمامہ کے مقام پر بنو حنیفہ کے مرتدین سے جو جنگ ہوئی۔اس میں ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نے بہادری کے وہی جوہر دکھائے جو رسالت مآب ﷺ کے دور میں دکھائے تھے۔یمامہ میں ایک بڑے باغ کے درمیان قلعہ تھا جس میں مرتدین جمع تھے، وہ قلعہ بند ہو کر لڑائی کر رہے تھے۔ اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ کوئی شخص قلعہ کے اندر کود جائے اور قلعےکا دروازہ کھول دے تاکہ مجاہدین قلعےمیں داخل ہوسکیں۔ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: کسی طرح مجھے اٹھا کر قلعے کے اندر اُتار دو تاکہ میں دروازہ کھول سکوں۔ساتھیوں نے تامل کیا کہ انہیں اکیلا دشمن کے نرغے میں چھوڑا جائے۔ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نے بڑے زور سے اپنے مطالبے کو دہرایا۔ جب ادھر سے انکار ہوا تو سخت ناراض ہوئے اور ساتھیوں کو مجبور کیا کہ انہیں لازماً قلعہ میں اُتارہ جائے۔چنانچہ سپاہیوں نے ان کو اُٹھا کر قلعے میں اُتارا۔جب انہوں نے دیوار سے چھلانگ لگائی تو ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ مگر ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نے ٹانگ کی قطعاً کوئی پروا نہ کی۔ اپنی تلوار اُٹھائی اور مرتدین سے اکیلے ہی قلعے کے اندر لڑائی شروع کردی۔ وہ لڑتے لڑتے دشمنوں کو دروازے کی طرف لے آئے اور اچانک دروازہ کھول دیا۔ادھر مسلمان دروازہ کھلنے کے منتظر تھے۔ وہ طوفان کی طرح اندر داخل ہوئے۔ ادھر ابو دجانہ رضی اللہ عنہ اپنی ٹانگ کے درد کو چھپائے مسلسل لڑتے رہے۔ لڑائی کے دوران ان کی ٹانگ کثرت ِحرکت کی وجہ سے اور زیادہ خراب ہوگئی اور درد میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا۔ادھر مرتدین ان کی تاک میں تھے۔ بالآخر یہ بہادر مجاہد زمیں پر گر پڑے۔کثرت سے خون بہنے کی وجہ سے وہ یمامہ کی جنگ میں شہید ہو گئے اور رہتی دنیا تک تاریخ کے سنہرے اوراق میں اپنا نام رقم کر گئے۔
رضی اللہ عنہ اسد الغابۃ92-93 دلائل النبوۃ، بیہقی3/-234
No comments:
Post a Comment